ششماہی مجلے ’ رشد‘ کی جنوری کی اشاعت میں ’قانون اتمام حجت اور قانون جہاد: ایک تجزیاتی مطالعہ‘کے نام سے ایک مضمون شائع ہوا۔ اس مضمون میں محترم جاوید احمد غامدی صاحب کے دوبنیادی تصورات یعنی ’قانون اتمام حجت‘ اور ’قانون جہاد‘ پر ایک تجزیہ پیش کیا گیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ غامدی صاحب کا پورا تصور دین انہیں بنیادوں پر استوار ہوتا ہے جس سے انہوں نے بہت گمراہ کن نتائج اخذ کیے ہیں۔اس لیے ضرورت اس امر کی تھی کہ غامدی صاحب کے دیگر نظریات کو زیر بحث لانے کی بجائے تصور دین کے حوالے سے ان کے فکر کی بنیادوں کو زیر بحث لایا جاتا، جس کا مداوا کسی حد تک اس مضمون سے ہو ا ہے۔ لیکن بعض اعتبارات سے یہ مضمون محل نظر بھی ہے۔ اس مضمون میں ان محل نظر نکات پر تجزیہ پیش کیا جا رہا ہے تا کہ ان کی مزید وضاحت ہو اور اس ضمن میں پیدا ہونے والےاشکالات کا ازالہ ہو سکے۔
مشرکین عرب سے قتال کی علتیں:
مضمون میں یہ نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ مشرکین عرب سے جہاد و قتال کے حکم کی اصل علت ’نقض عہد‘ یا ’طعن فی الدین‘ تھی اور اس ضمن میں دلیل کے طور پر سورۃ توبہ کی آیات ۴ اور ۵ پیش کی گئیں ۔ لیکن یہ بات محل نظر ہے ۔ اگر مشرکین عرب سے جہاد و قتال کی علتیں یہیں تھیں تو پھر ان لوگوں سے قتال کا حکم نہیں ہونا چاہیے تھا جو اپنے عہدوں کی پاسداری کر رہے تھے۔ پر ہم دیکھتے ہیں کہ قتال کا حکم تو ان سے بھی تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ نقض عہد کرنے والوں کے لیے ۴ ماہ کی مدت طے کر دی گئی ، جبکہ معاہدے کی پاسداری کرنے والوں کے لیے ان کے سابقہ معاہدوں کی مدت کو برقرار رکھا گیا ۔ چنانچہ اگر معاہد مشرک قبائل بھی ان معاہدوں کے ختم ہونے کے بعد حدود حرم (یا سرزمین عرب ) میں رہنا چاہیں تو نہیں رہ سکتے ۔ورنہ ان کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ ’ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ۔۔‘۔اسی طرح ’فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّـهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ۔۔‘ کا حکم بھی صرف معاہد مشرکین کے لیے خاص نہیں ہے۔ سورہ توبہ کی آیات میں کہیں سے یہ جواز نہیں نکلتا کہ ان میں سے ایک نقض عہد کرنے والے مشرکیں کے لیے خاص ہے اور دوسری معاہدے کی پاسداری کرنے والے مشرکین کے لیے۔ بلکہ دونوں قسم کے مشرکین کا ذکر کرنے کے بعد یہ احکامات دیے گیے ہے کہ اب جو بھی حرمت کے مہینے طے کر دیے گئے ہیں یعنی نقض عہد والوں کے لیے ۴ ماہ اور معاہدے کی پاسداری کرنے والوں کے لیے ان کے معاہدوں کی سابقہ طے شدہ مد ت، تو اس کے بعداگر وہ اسلام قبول نہ کریں اور ہجرت سے بھی انکاری ہوں تو ’انہیں قتل کرو جہاں بھی پائو۔۔۔‘اور اگر ان میں سے کوئی ایسا مشرک نظر آئے جسے اس مدت کا پتہ نہیں تھا تو اس کو اللہ کا کلام سنا کر امن کی جگہ پر پہنچا دو (کہ مبادہ ایسا نہ ہو کہ کوئی انجانے میں مارا جائے)۔
پھر معاہدے کی پاسداری کرنے والے مشرکین سے اہل کتاب جیسا معاملہ کرنے کے حوالے سے جوحدیث دلیل کے طور پر پیش کی گئی ہے وہ قتال سے متعلق حضورﷺ کی عمومی ہدایات سے متعلق ہے ، اس میں کہیں بھی مشرکین عرب کاخصوصی طور پر ذکر نہیں آیا۔ اس لیے اس حدیث کی بناء پر معاہد مشرکین کے حوالے سے مختلف حکم اخذ کر لینا صحیح نہیں ہے۔
اس کے برعکس ان آیات سے مشرکین عرب سے قتال کی جو علت معلوم ہوتی ہے وہ ہے ’اللہ اور رسول ﷺ کی مشرکین سے براٗت‘۔ اس کا اشارہ آیت ۵ میں مل جاتا ہے کہ اس کے بارے میں یہ حکم صرف سی صورت میں ٹل سکتا ہے کہ یہ شرک سے توبہ کریں ، اور نماز پڑھنا اور زکوٰۃ دیناشروع کریں یا دوسرے لفظوں میں مسلمان ہو جائیں ۔تو معلوم ہو ا کہ اصل مسئلہ مشرکین کا نقض عہد نہیں بلکہ ان کا شرک ہے ۔ اس بات کی تائید اسی سورت کی آیت نمبر ۱۷ سے ہوتی ہے ۔
مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّـهِ شَاهِدِينَ عَلَىٰ أَنفُسِهِم بِالْكُفْرِ ۚ أُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ ﴿١٧﴾[توبہ]
مشرکوں کی زیبا نہیں کہ خدا کی مسجدوں کو آباد کریں جب کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہیں۔ ان لوگوں کے سب اعمال بےکار ہیں اور یہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔
اس آیت میں مسلمانوں کو مشرکین سے قتال کا حکم دینے کے بعد یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ مشرکین اپنے کفر کی وجہ سے کعبے کی تولیت کا حق کھو چکے ہیں ۔ چنانچہ اس حق کے کھونے کی وجہ مشرکین کا کفر ہے۔ اسی طرح آیت ۲۸ سے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے جو اس ضمن میں غالباً اختتامی آیت کا درجہ رکھتی ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا ۚ وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٢٨﴾[توبہ]
مومنو! مشرک تو پلید ہیں تو اس برس کے بعد وہ خانہٴ کعبہ کا پاس نہ جانے پائیں اور اگر تم کو مفلسی کا خوف ہو تو خدا چاہے گا تو تم کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ بےشک خدا سب کچھ جانتاہے۔
چنانچہ ثابت ہوا کہ سورۃ توبہ کے ا ٓغاز میں جو مشرکین سے اعلان براٗت کیا گیا اور ان کو مسجد حرام کی حدود یا سرزمین عرب سے نکالنے کا جو حکم صادر ہوا ، اس کی اصل وجہ ان کا شرک کی وجہ سے پلید ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ حکم بھی دے دیا گیا کہ اب جبکہ حدود حرم یا سرزمین عرب سے ان مشرکین کو نکال دیا گیا ہے تو دوبارہ وہ اس میں داخل نہ ہونے پائیں ۔
اس میں اب جو نکتہ وضاحت طلب رہ جاتا ہے وہ ’یقربوا المسجد الحرام‘ کی تشریح ہے جس میں کچھ اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد مسجد حرم، بعض کے نزدیک حدود حرم ، اور بعض کے نزدیک سرزمین عرب ہے۔ اکثریت کا قول یہی ہے کہ اس سے مراد پورا حجاز یا سرزمین عرب ہے۔ اس کی تائید میں مندرجہ ذیل احادیث پیش کی جاتی ہیں:
وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ’ لاَ يَجْتَمِعُ دِينَانِ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ ‘۔۔۔۔[موطا امام مالک، کتاب المدینہ]
ابن شہاب سےامام مالک نے موطا میں نقل کیا ہےکہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:’جزیرہِ عرب میں دود دین جمع نہیں ہو سکتے ۔۔۔
اسی طرح عمر ابن خطاب سے صحیح مسلم میں یہ حدیث موجود ہے کہ آپﷺ نے فرمایا :
لأُخْرِجَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ حَتَّى لاَ أَدَعَ إِلاَّ مُسْلِمًا ۔[مسلم، کتاب الجہاد ولاسیر، باب ’إِخْرَاجِ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ‘]
میں یقناً یہود و نصاری کو جزیرہ ِعرب سے نکال دوں گا حتٰی کہ یہاں مسلمانوں کے سوا اور کوئی نہ رہے۔
صحیح بخاری کی ایک حدیث میں جو ابن عباس ؓ سے مروی ہے جزیرہ عرب کی مزید وضاحت ان الفاظ میں آئی ہے :
۔۔۔وَأَوْصَى عِنْدَ مَوْتِهِ بِثَلاَثٍ ” أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ ”. وَنَسِيتُ الثَّالِثَةَ. وَقَالَ يَعْقُوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ سَأَلْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ. فَقَالَ مَكَّةُ وَالْمَدِينَةُ وَالْيَمَامَةُ وَالْيَمَنُ. وَقَالَ يَعْقُوبُ وَالْعَرْجُ أَوَّلُ تِهَامَةَ.[بخاری،کتاب الجہاد والسیر، باب هَلْ يُسْتَشْفَعُ إِلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ وَمُعَامَلَتِهِمْ]
حضور ﷺ نے بستر مرگ پر تین وصیتیں فرمائیں،’مشرکوں کو جزیرہ ِعرب سے نکال دو ،بیرونی وفود کا احترام کرو اور انہیں تحائف دو جیسا کہ تم نے مجھے ان سے سلوک کرتے دیکھا ہے۔(ابن عباس فرماتے ہیں،)’تیسری نصیحت میں بھو گیا‘۔
یعقوب بن محمد نے کہا،’ میں نے مغیر ہ بن عبد الرحمن سے جزیرہ عرب کے متعلق سوال کیا۔‘ انہوں ے جواب دیا ،’اس سے مراد مکہ،مدینہ، یمامہ اور یمن ہیں ‘۔اورانہوں (یعقوب )نے مزید فرمایا،’اور تہامہ کا شروع کا حصہ عرج بھی اس میں شامل ہے۔‘
خیر یہ بحث گو کہ اہم ہے لیکن طویل ہے اور اس مضمون کے احاطے سے باہر ہے اس لیے یہیں پر اکتفاء کرتے ہیں ۔
رہی بات ان آیات کی جن میںمشرکین کے نقض عہد کا ذکر آیا ہے ، تو وہ آیات مسلمانوں کو قتال کی ترغیب دلانے کے لیے ہیں ۔اس سے ملتی جلتی آیات قرآن میں دیگر مقامات پر آئی ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالی سورۃ البقرہ میں جہاد کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔
وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴿١٩٠﴾[بقرۃ]
اور تم بھی خدا کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرنا کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
اس آیت میں اللہ مسلمانوں کو قتال کی ترغیب دیتے ہوئے گویا کہ یوں فرما رہے ہیں کہ تم کفار سے کیسے قتال نہیں کرو گے جو تم سے لڑائی کی روش پر گامزن رہتےہیں ۔ سورۃ النساء آیت ۷۵میں فرمایا :
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَـٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا ۔[نساء]
اور تم کو کیا ہوا ہے کہ خدا کی راہ میں اور اُن بےبس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو دعائیں کیا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو اس شہر سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں نکال کر کہیں اور لے جا۔ اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا۔ اور اپنی ہی طرف سے کسی کو ہمارا مددگار مقرر فرما۔
اسی طرح سورہ توبہ آیت ۳۶ میں اللہ فرماتے ہیں :
۔۔۔۔وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ۔[توبہ]
۔۔۔اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں۔ اور جان رکھو کہ خدا پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔
ان آیات میں بھی اللہ تعالیٰ کفار کے ظلم اور قتال کرنے کی صفت کوواضح فرما کر مسلمانوں کو قتال کی ترغیب دلا رہے ہیںعلی ھذہ القیاس۔۔(مزید ضاحت نیچے آرہی ہے)
چنانچہ ثابت ہوا کہ مشرکین عرب سے قتال کے حکم کی علت نقض عہد نہیں جیسا کہ مذکورہ مضمون میں پیش کیا گیا ہے بلکہ اس کی علت ان کا شرک اور کفر ہے۔ اس لیے سورہ توبہ کے آغاز سے لے کر آیت نمبر ۲۸ تک کی آیات میں پیش کی گئی ہدایات ’اتمام حجت ‘یا’ اقامت حجت ‘ سےمتعلق نہیں بلکہ حدود حرم یا جزیرہ عرب کے اندرمشرکین سے متعلق ہیں جن کے حوالے سے اللہ کے احکامات یہ ہیں کہ پہلے ان سے قتال کیا جائے اور پھرغلبے کے بعد ان کا ’اخراج‘ کر دیا جائے۔ جبکہ حدود حرم یا جزیرہ عرب سے باہر مشرکین اور کفار سے متعلق اللہ کے احکامات اگلی آیات میں آئے ہیں اور یہ وہ یہ ہیں کہ ان سے قتال کیا جائے اور پھر غالب ہو کر ان سے جزیہ لیا جائے اور ماتحت ہو کر رہنے پر مجبور کر دیا جائے۔
قتال فی سبیل اللہ کی علت محض ظلم اور عدوان ہے:
مذکورہ مضمون میں یہ تصور پیش کیا گیا کہ ’ جہاد و قتال کی علت اسلام میں ایک ہی ہے اور وہ ظلم اور عدوان ہے۔‘ لیکن یہ بات درست نہیں ہے ۔ سورۃ توبہ کی آیات ۲۹ تا ۳۱میں اللہ تعالیٰ جہاد و قتال فی سبیل اللہ کی علت کفار کا کفر اور شرک ہی قرار دیتے ہیں ۔
قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ ﴿٢٩﴾ وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّـهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّـهِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّـهُ ۚأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ ﴿٣٠﴾ اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿٣١﴾[توبہ]
۔ ان لوگوں سے لڑو، جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں ﻻتے جو اللہ اور اس کے رسول کی حرام کرده شے کو حرام نہیں جانتے، نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ، جو اہل کتاب میں بھی ہیں ، یہاں تک کہ وه ذلیل وخوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں ۔ یہود کہتے ہیں عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ قول صرف ان کے منھ کی بات ہے۔ اگلے منکروں کی بات کی یہ بھی نقل کرنے لگے اللہ انہیں غارت کرے وه کیسے پلٹائے جاتے ہیں ۔ ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح کو حاﻻنکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں وه پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے ۔
اس آیت میں کفر کی مندرجہ ذیل صورتوں کا ذکر فرمایا ہے جو ان سے قتال کا موجب ہیں۔
- یہ اللہ اور آخرت کو نہیں مانتے
- یہ ان چیزوں کو حرام نہیں ٹھہراتے جن کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام ٹھہرایا ہے
- یہ دین اسلام کو تسلیم نہیں کرتے
- یہ عیسیٰؑ اور عزیر ؑ کو اللہ کے بیٹے مانتے ہیں
- یہ اپنے علما ء اور مشائخ کوقانون سازی کا حق دے کر رب بنائے ہوئے ہیں
اسی طرح سورۃ بقرہ میں ہی کفار سے لڑائی کی علتیں بیان کرتے ہوئے فرمایا:
اس کے علاوہ قرآن میں جہاد و قتال کی عمومی علت ’کفر کا فتنہ ‘ واشگاف الفاظ میں متعدد بار بیان کی گئی ہے :
یَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ ۖ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللَّـهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۗ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٢١٧﴾[بقرۃ]
(اے محمدﷺ) لوگ تم سے عزت والے مہینوں میں لڑائی کرنے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ ان میں لڑنا بڑا (گناہ) ہےاور خدا کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ میں جانے) سے (روکنا) ۔ اور اہل مسجد کو اس میں سے نکال دینا خدا کے نزدیک اس سے بھی زیادہ (گناہ) ہے۔ اوریہ (کفر کا)فتنہ خون ریزی سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور(یہ بھی یاد رہے کہ) یہ لوگ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر مقدور رکھیں تو تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں۔ اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر کر (کافر ہو) جائے گا اور کافر ہی مرے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہوجائیں گے اور یہی لوگ دوزخ (میں جانے) والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے۔
اس آیت میں کفر کے فتنے کے مندرجہ ذیل مظاہر بھی واضح کیے گئے ہیں :
- اللہ کے راست سے روکنا
- مسجد حرام سے روکنا
- اللہ کا کفر کرنا
- اہل مسجد کو اس میں سے نکالنا
- کفار کا اہل ایمان سے لڑائی سے باز نہ آنا جب تک کہ غالب ہو کہ کفر کا فتنہ نافذ نہ ہو جائے
اس کے علاوہ اس علت کو سورۃ البقرہ اور سورۃ الانفال میں واضح طور پر بیان کیا گیا:
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّـهِ ۖ فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ ﴿١٩٣﴾[بقرۃ]
اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہنا کہ فتنہ (کفر کا فساد) نابود ہوجائے اور (ملک میں) اللہ ہی کا دین ہوجائے اور اگر وہ (فساد سے) باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں (کرنی چاہیئے)۔
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّـهِ ۚ فَإِنِ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّـهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ﴿٣٩﴾[انفال]
۱ور ان لوگوں سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ (یعنی کفر کا فساد) باقی نہ رہے اور دین کل کا کل اللہ ہی کا ہوجائے اور اگر باز آجائیں تواللہ ان کے کاموں کو دیکھ رہا ہے۔
چنانچہ ثابت ہو اکہ کسی جگہ اگر دین کل کا کل اللہ کا نہیں ہےتو وہاں کفر کا فتنہ نافذ ہے اور یہ جہاد و قتال فی اسبیل اللہ کی ایک واضح علت ہے۔ لیکن رہی بات کفار اور مشرکین کی تو ان کے ضمن میں علت خود ان کا کافر اور مشرک ہونا قرار پاتی ہے کیونکہ وہ غلبے کی صورت میں لامحالہ کفر کا فتنہ ہی نافذ کریں گے۔ اس لیے سرزمین عرب میں تو یہ رہنے کے حقدار بھی نہیں ہیں ، جبکہ اس سے باہر ان کو رہنے کا حق ضرور ہے پر مسلط ہو کر نہیں بلکہ مغلوب ہو کر۔
رہی بات سورہ بقر ہ کی آیت ۱۹۰ کی جس کی بناء جہاد و قتال کی علت کو ظلم اور عدوان قرار دیا گیا ہے تو اس کا بھی مفہوم پیش کرنے میں کچھ کوتاہی ہوئی ہے۔
وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴿١٩٠﴾[بقرۃ]
اور تم بھی خدا کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرنا کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
اس آیت میں بظاہر یہ حکم نظر آ رہا ہے کہ کفار سے جہاد اسی صورت میں ہو گا اگر وہ مسلمانوں سے لڑائی کریں ۔اور اس میں بھی حد سے آگے بڑھنے کی ممانعت کی گئی ہے۔لیکن اگر اس سے اگلی آیات کو ہی پڑھ لیا جائے تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ اللہ فرماتے ہیں :
وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ ﴿١٩١﴾ فَإِنِ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٩٢﴾ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّـهِ ۖ فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ ﴿١٩٣﴾ الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ [بقرۃ]
انہیں مارو جہاں بھی پاؤ اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکاﻻ ہے ،اور (کفر کا ) فتنہ قتل سے زیاده سخت ہے، اور مسجد حرام کے پاس ان سے لڑائی نہ کرو جب تک کہ یہ خود تم سے نہ لڑیں، اگر یہ تم سے لڑیں تو تم بھی انہیں مارو کافروں کا بدلہ یہی ہے۔ اگر یہ باز آجائیں تو اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے ۔ ان سے لڑو جب تک کہ (کفر کا) فتنہ نہ مٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب نہ آجائے، اگر یہ رک جائیں (تو تم بھی رک جاؤ) زیادتی تو صرف ظا لموں پر ہی ہے ۔ حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں ادلے بدلے کی ہیں جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جو تم پر کی ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔
اب اگر اس سے پچھلی آیت کا مطلب یہ ہے جیساکہ اخذ کیا گیا ہے کہ کفار سے جہاد صرف اسی صورت میں ہو گا جب وہ لڑائی کریں گے ، ورنہ کوئی جہاد نہیں۔ تو پھر اس سے اگلی آیت میں اللہ یہ کیوں فرما رہے ہیں کہ کفر کا فتنہ خونریزی سے کہیں سخت ہے؟ آیت کو اگر سیاق و سباق میں رکھا جائے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ آیت نمبر ۱۹۰ میں اللہ تعالیٰ کفار کی روش کو بیان کر کے اہل ایمان کو جہاد کا شوق دلا رہے ہیں ۔ یہ نہیں کہا جا رہا کہ جب وہ تم سے لڑیں توتم ان سے لڑو ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان سے تم قتال کیسے نہ کرو گے جبکہ وہ تم سے لڑائی کرتے ہی ہیں ۔یہی مفہوم سیاق و سباق سے ہم آہنگ ہے ۔اسی لیے اس سے اگلی آیت میں اللہ فرماتے ہیں کہ انہیں قتل کرو جہاں بھی پائو اور انہیں نکالو جیسا کہ ’انہوں نے تمہیں نکالا ہے‘ اور اگر تمہاری بات نہیں مانتے یعنی باہر نہین نکلتے تو ان سے لڑائی کرو اور انہین قتل کرو۔ یہی مفہوم تمام بڑے مفسرین نے بیان کیا ہے۔ ابن کثیر اس آیت کے مفہوم میں دو تفسیریں بیان کرتے ہیں[تفسیر ابن کثیر ، تفسیر آیت۱۹۰ تا ۱۹۲ا] :
- ایک تفسیر یہ ہے:
’حضرت ابوالعالیہ ؒ فرماتے ہیں کہ مدینہ شریف میں جہاد کا پہلا حکم یہی نازل ہوا ہے حضورﷺاس آیت کے حکم کی رو سے صرف ان لوگوں سے ہی لڑتے تھے جو آپ سے لڑیں ۔جو آپ سے نہ لڑیں خود ان سے لڑائی نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ سورہ برأت نازل ہوئی بلکہ عبد الرحمن بن زین بن اسلام ؒ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ ہے اور ناسخ آیت فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ ۔۔ہے یعنی جہاں کہیں مشرکین کو پائو انہیں قتل کرو لیکن اس بارے میں اختلاف ہے۔‘
چنانچہ یہ واضح ہوا کہ اگر اس آیت کی یہ تشریح بھی کر لی جائے کہ مشرکین سے لڑائی اسی صورت میں ہو گی جب وہ لڑائی کریں تب بھی یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ بس اب اور کسی مقصد کے لیے کفار و مشرکین سے لڑائی نہیں ہو سکتی ۔کیونکہ ابن کثیر فرما رہے ہیں کہ یہ آیت سورۃ توبہ کی آیت نمبر۵سےمنسوخ ہو گئی ہے اوراب یہ حکم عام ہے کہ جہاں بھی مشرکوں کو پائو قتل کرو (دوسرے لفظوں میں مشرکین عرب کے حوالے سے اب حدود حرم کی قید نہیں ہے انہیں دنیا میں جہاں بھی پایا جائے قتل کیا جائے)۔ لیکن ساتھ ہی ابن کثیر فرماتے ہیں کہ آیت کی اس تشریح میں اختلاف ہے۔
- اس کے بعد وہ دوسری تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’۔۔اس لیے کہ اس سے تو مسلمانوں کو رغبت دلانا اور انہیں آمادہ کرنا ہے کہ اپنے ایسے دشمنوں سے کیوں جہاد نہ کرو جو تمہارے اور تمہارے دین کے کھلے دشمن ہیں۔ جیسے وہ تم سے لڑتے ہیں، تم بھی ان سے لڑو،جیسے اور جگہ فرمایا وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً۔۔یعنی مل جل کر مشرکوں سے جہاد کرو جس طرح وہ تم سے سب کے سب مل کر لڑائی کرتے ہیں ۔چنانچہ اس آیت میں بھی فرمایا، انہیں قتل کرو جہاں پائو اور انہیں وہاں سے نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے مطلب یہ ہے کہ جس طرح ان کا قصد تمہارے قتل کا اور تمہیں جلا وطن کرنے کا ہے، تمہارا بھی اس کے بدلے میں یہی قصد رہنا چاہیئے۔۔۔۔‘
اس آیت کی یہ دوسری تفسیر امام ابن کثیر کے نزدیک زیادہ بہتر ہے کہ اس آیت میں کفار کی صفت بیان کی جا رہی ہے کہ وہ مسلمانوں سے لڑتے ہیں یہ نہیں کہا جا رہا کہ جب وہ لڑیں توان سے لڑا جائے بلکہ حکم یہ ہے کہ ان سےقتال کرنا واجب ہے جب تک کہکفر کا فتنہ ختم اور دین مکمل طور پر اللہ کا نہیں ہو جاتا۔
اسی طرح امام قرطبی کے نزدیک بھی اس آیت کی دو تفسیریں ہیں ۔
- ایک تفسیر میں وہ ان آیات کا پسمنظر صلح حدیبیہ کا بتاتے ہیں، جب کفار سے یہ معاہد ہ ہوا تھا کہ محمد ﷺ اور صحابہ(رضی اللہ عنہم) اگلے سال عمرہ کرنے آئیں گے۔ اگلے سال جب عمرے کی غرض سے نکلنے لگے تو خدشہ ہو اکہ کہیں کفار عہد شکنی کر کے لڑائی نہ شروع کر دیں۔ اس وقت اہل ایمان حدود حرم میں اور حرام مہینوں میں قتال کرنے کے حوالے سے دل میں ناپسندیدگی محسوس کر رہے تھے تو یہ آیات نازل ہوئیں۔ امام فرماتے ہیں :
’مسلمانوں نے حرم میں اور حرمت والے مہینہ میں لڑنا ناپسند کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی تمہارے لیے قتال حلال ہے اگر کفار تم سے قتال کریں۔یہ آیت حج کے ذکر اور گھروں کے پیچھے سے آنے کے گزشتہ ذکر کے ساتھ متصل ہے ۔ نبی اکرم ﷺ اس سے جنگ کرتے تھے جو آپ سے جنگ کرتا تھا اور اس سے جنگ نہیں کرتے تھے جو آپ سے جنگ نہیں کرتا حتی کہ یہ آیت نازل ہوئی فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكينَ (توبہ:۵)۔پس یہ آیت منسوخ ہو گئی۔ یہ علماء کی ایک جماعت کا قول ہے۔ابن زید اور ربیع نے کہا اس کو قَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً (توب:۳۶) نے منسوخ کیا جب تمام کفار سے جنگ کرنے کا حکم ہوا۔‘
- امام قرطبی کے نزدیک دوسری تفسیر یہ ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہو ئی بلکہ محکم ہے اور اس سے مراد یہ ہے کفار سے لڑائی کرو جن کی صفت ہی یہ ہے کو وہ تم سے لڑتے ہیں۔احتیاط اس بات کی رکھنی ہے کہ عوتوں،بچوں اور راہبوں کو قتل کرنے سے باز رہو۔ امام فرماتے ہیں:
’حضرت ابن عباس،حضرت عمر بن عبد العزیز اور مجاہد نے کہا:یہ آیت محکم ہے یعنی تم ان سے جہاد کرو جو تم سے لڑتے ہیں اور عورتوں بچوں اور راہبوں کے قتل میں حد سے تجاوز نہ کرو۔اس کا بیان آگے آئے گا۔ ابو جعفر نحاس نے کہا کہ یہ سنت اور نظرمیں اصح قول ہے۔‘ آگے اسی کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’پہلا مقصود اہل مکہ تھے۔ پس ان سے (جہاد کا)آغاز متعین ہو گیا جب اللہ تعالیٰ نے مکہ کو فتح فرمایا تو پھر ان سے متصل لوگوں سے جنگ تھی جو اذیت دیتے تھے حتی کہ دعوت عام ہو جائے اور کلمۃ اللہ تمام آفاق میں پہنچ جائے اور کفار میں سے کوئی باقی نہ رہے۔ یہ حکم قیامت تک جاری رہے گا۔‘
چنانچہ یہ ثابت ہوا کہ اگر اس آیت کا یہ مطلب بھی لے لیا جائے کہ کفار و مشرکین سے اس وقت لڑنا ہے جب وہ لڑائی کریں ، تو یہ آیت سورۃ توبہ کی آیات ۵ یا ۳۶ سے منسوخ ہو چکی ہے اور اب ہرحالت میں کفار سے جہا د کرنا ہے یہاں تک کہ دین کل کا کل اللہ کے لیے نہیں ہو جاتا۔رہی دوسری تفسیر جسےامام ابن کثیر اور امام قرطبی دونوں نے اصح کہا ہے، خے حوالے سے تو یہاں کوئی اشکال باقی نہیں رہتا کہ یہاں توکفار کی صفت کہ’ وہ تو مسلمانوں سے لڑتے ہی ہیں‘ بیان کر کے ان سے جہاد کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔
پھر قرآن کی بہترین تفسیر سب سے پہلے وہ ہے جسے قرآن خود پیش کرے۔ جیسا کہ پہلے بیا ن کیا جا چکا ہے، کچھ آیات کے بعد ہی اللہ تعالیٰ نے دوبارہ اس حکم کو آیات ۲۱۵ تا ۲۱۸ میں ’کُتِبَ عَلَیکُمُ القِتَالُ وَھُوَ کُرھُلَّکُم (تم پر قتال فرض کر دیا گیا ہے چاہے تمہیں کراہت ہو)‘ کے واضح الفاظ کے ساتھ دہرایا تا کہ اگر کوئی اشکال باقی رہ گیا ہے تو وہ بھی دور ہو جائے ۔ اور ساتھ یہ بھی واضح کردیا کہ اگر مسلمان کفار سے قتال میں پہل نہ بھی کریں تو لامحالہ انہیں قتال کرنا ہی پڑے گا کیونکہ کافر اس وقت تک قتال ترک نہیں کریں گے جب تک مسلمانوں پر غلبہ پا کر کفر کا فتنہ نافذ کر کے انہیں مرتد نہ بنا دیں۔
چنانچہ ثابت ہوا کہ عمومی طور پر جہاد و قتال فی سبیل اللہ کی اصل علت ’کفر کا فتنہ‘ ہی ہے۔ کیونکہ یہ فتنہ لامحالہ کفار و مشرکین کے اقتدار میں نافذ ہو تا ہے، اس لیے بعض مقامات پر ان کفار و مشرکین کے کفر اور شرک ہی کو اللہ نے ان سے جہاد و قتال کی علت قرار دیا ہے۔رہی بات ظلم اور عدوان کی تو اس کو ایک اضافی علت تو قرار دیا جا سکتا ہے ، اس کو جہاد و قتال کی اصل اور واحدعلت قرار دینا درست نہیں۔
یہ بات واضح رہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک بھی شریعت کے ابدی حکم کے حوالے سے جہاد و قتال کی علت ظلم اور عدوان ہی ہے ۔ غامدی صاحب ’میزان ‘میں لکھتے ہیں :
’ یہ جہاد و قتال ہے ، لیکن اِس کا حکم قرآن میں دو صورتوں کے لیے آیا ہے:
ایک ،ظلم و عدوان کے خلاف
دوسرے ، اتمام حجت کے بعد منکرین حق کے خلاف
پہلی صورت شریعت کا ابدی حکم ہے اور اِس کے تحت جہاد اُسی مصلحت سے کیا جاتا ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے ۔ دوسری صورت کا تعلق شریعت سے نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت سے ہے جو اِس دنیا میں ہمیشہ اُس کے براہ راست حکم سے اوراُنھی ہستیوں کے ذریعے سے روبہ عمل ہوتا ہے جنھیں وہ رسالت کے منصب پر فائز کرتا ہے ۔ انسانی تاریخ میں یہ منصب آخری مرتبہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوا ہے۔۔۔‘[جاوید احمد غامدی،’میزان۔قانون جہاد‘، المورد]
اس پر مصنفینِ مضمون یہ بحث کر ستکے ہیں کہ ظلم اور عدوان سے متعلق ان کے تصور اور غامدی صاحب کے تصور میں فرق ہے او ریہ کہ ان کے تصور ِ ظلم اور عدوان کی تعریف میں کفر کا فتنہ اور کافر کا حکومت میں ہونا بھی شامل ہیں ۔لیکن اس الجھن میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے جبکہ اس کی بجائے ’کفر کے فتنے ‘کی واضح اصطلاح موجود ہے جو قرآنی الفاظ’ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ ‘سے ماخوذ ہے ۔
اقامت حجت اور دنیوی عذاب کا تعلق
مذکورہ مضمون میں ’اتمام حجت ‘ کے تصور کو کلی طور پر رد نہیں کیا گیا بلکہ اس کے لیے ایک مختلف اصطلاح ’اقامت حجت‘ تجویز کی گئی ہے اور یہ نکتہ پیش کیا گیا ہے کہ اقامت حجت کا تعلق یو م الحشر میں ’قطع عذز‘ سے ہے، جبکہ دنیوی عذاب سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کی تائید کے لیے یہ دلیل پیش کی گئی کہ ازروئے قرآن تمام رسولوں کی امتوں پر عذاب نہیں آیا۔ اس میں خصوصاً بنی اسرائیل کا ذکر کیا گیا ہے ۔مضمون کا متن یہ ہے :
’اس حد تک تو یہ بات درست ہے کہ رسول کا انکار کرنےو الی اقوام پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا رہا ہے اور یہ ایسا عذاب تھا جو ان اقوام کو صفحہ ہستی سے مٹا چھورتا تھا۔ لیکن اس میں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ قرآن مجید میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ ہر رسول کی قوم کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہوا کہ رسول کے انکار پر اس کی زندگی میں ہی قوم پر عذاب نازل ہوا ہو۔سب سے زیادہ رسول جس قوم کی طرف مبعوث ہوئے ہیں ، وہ یہود ہیں ۔اور یہود نے بہت سے رسولوں کو جھٹلایابعض کو تو شہید بھی کر دیا لیکن ان پر اللہ کی طرف سے کوئی عذاب استیصال نازل نہیں ہوا۔ ‘
یہ تجزیہ مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ اگر قانون یہ ہے کہ ’اتمام حجت ‘ یا’ اقامت حجت ‘ کے بعد قوم پر رسول کی موجودگی میں ہی عذاب آتا ہے ، تو یہود کے حق میں آج شرائط پوری نہیں ہیں ۔ ان کے آخری رسول عیسیٰؑ کو تو اٹھا لیا گیا ہے۔ اور یہ ہمیں معلوم ہے کہ جب وہ دوبارہ آئیں گے تو ان کی موجودگی میں یہود پر عذاب استیصال واقع ہو گا۔ پھریہ بات بھی درست نہیں ہے کہ یہود نے بعض رسولوں کو شہید کیا۔ انہوں نے انبیاء کو شہید کیا ہے ، رسولوں کو نہیں۔ قرآن کی کسی آیت سے رسولوں کا شہید ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ اس لیے غامدی صاحب کا یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ یہود کے لیے استثناء ہے ۔ جب شرائط پوری ہونا باقی ہیں تو استثنا ء کاہے کا؟ لیکن کیونکہ غامدی صاحب تو عیسیٰؑ کی واپسی کے قائل ہی نہیں اس لیے ان کے لیے استثناء کا عذر ضروری ٹھہرتا ہے۔
اسی طرح دوسری دلیل ابراہیم ؑ کی دی گئی ہے ۔ ان کے حوالے سے بھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہ نبی تھے یا رسول ؟ ایک رائے یہی ہے کہ ان کی زندگی کے پہلے حصے میں وہ ایک نبی کی حیثیت سے تھے جیسا کہ سورۃ المریم کی آیت ۴۱ میں ذکر ہو اہے:
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ۔[مریم]
جبکہ دوسرے حصے میں وہ رسول بنے۔جیسا کہ ان کا ذکر موسیٰؑ کے ساتھ سورۃ الاعلیٰ میں آتا ہے۔
إِنَّ هَـٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولَىٰ۔ صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ ۔ [اعلیٰ]
یہ بات پہلے صحیفوں میں (مرقوم) ہے ۔(یعنی) ابراہیم اور موسیٰ (علیہم السلام)کے صحیفوں میں۔
بہرحال ان کے معاملے کو دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔رہی بات سورۃ یسین میں رسولوں کے ذکر کی، تو وہاں بھی رسولوں کا ایک دوسرے کی وفات کے بعد بھیجا جانا ثابت نہیں ہوتا۔ تینوں کے بیک وقت موجود ہونے کے مفہوم کی گنجائش موجود ہے۔ اس لیے اس کو بھی دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا ۔
اس لیے اس نہج پر تو بحث کرنا بنتا ہے اور مصنفینِ مضمون نے خوب بحث کی بھی ہے کہ قانونِ اتمامِ حجت یا اقامتِ حجت کا کوئی تعلق جہاد و قتال فی سبیل اللہ سے ثابت نہیں ہے۔ لیکن یہ ثابت کرنا کہ اس کا کوئی تعلق ’دنیوی عذاب سے نہیں ہے‘ مذکورہ دلائل کی روشنی میں ثابت نہیں ہوتا۔
اس کے برعکس اس نکتہ پر روشنی ڈالنی چاہیے کہ اگر’ اتمام حجت ‘یا’ اقامت حجت ‘کا تعلق جہاد فی دسبیل اللہ کےساتھ فرض بھی کر لیا جائے تب بھی یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ آج حجت قائم نہیں کی جاسکتی درست نہیں ہو گا۔ جب امت مسلمہ کو شہاد ت علیٰ الناس کی ذمہ داری دے دی گئی ،آخری کتاب قرآن مجید کو تاقیام قیامت محفوظ کر دیا گیا اوراسی کو معجزے کے طور پر ہمیشہ کے لیے باقی چھوڑ دیا گیا تو پھر آج بھی حجت قائم کرنے کے سارے اسباب محیہ کر دیے گئے ہیں ۔ اور یہ با آسانی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ بندوبست اللہ رب العزت کے اس وعدے کے عین مطابق ہوا ہے جس کا ذکر سورہ نساء آیت ۱۶۵میں ہوا ہے:
رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّـهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ۔[نساء]
ہم نے پیغمبروں کو خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا تاکہ لوگوں کے پاس الله کے خلاف پیغمبروں کے بعد کوئی حجت باقی نہرہے اور الله غالب حکمت والا ہے۔
فرق صرف یہ ہے کہ پہلے رسول انفرادی طور پر موجود ہوتا تھا اور اب اس امت کی شکل میں یہ اجتماعی طور پر موجود ہے۔گویا کہ رسول اکرم ﷺ پر نبوت ورسالت کا خاتمہ تو ہو گیا پر کار رسالت کاخاتمہ نہیں ہوا ۔ اس لیے یہ دعوی کہ آج رسول کی غیر موجودگی میں حجت قائم نہیں کی جا سکتی جیسا کہ غامدی صاحب کا موقف ہے با لکل غلط ہے کیونکہ اس سے اللہ کی ۔معاذاللہ۔ وعدہ خلافی لازم آتی ہے جس کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ بلکہ اگر غامدی صاحب کے موقف کو صحیح مان لیا جائے توایک اور بھیانک نتیجہ بھی نکلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر رسول اکرم ﷺ کے بعد غیر مسلموں پر اتما م حجت نہیں ہو سکتا تو خود مسلمانوں پر کیسے ہو سکتا ہے۔ اور اگر ایساہےتو خود مسلمانوں کے لیے دین کی حیثیت صرف راہنما اصولوں تک رہ جائے گی اور شریعت کے تفصیلی احکامات کی پیروی کرنا ضروری نہ ٹھہرے گا ۔
حرف آخر:
اس میں کوئی شک نہیں کہ محترم جاوید احمد غامدی صاحب کے تصور دین کی ساری عمارت دو تصورات پر استوار ہوتی ہے اور وہ ہیں ’قانون اتمام حجت ‘ اور اسی سے متعلق ’قانون جہاد ‘۔ زیر تجزیہ مضمون میں بجا طور پر یہ نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ اس سے قطع نظر کہ ’قانون اتمام حجت ‘ کے نام سے کسی قانون کا قرآن میں ذکر ہے یا نہیں ،یہ بات مبرہن ہے کہ ازروئے قرآن یہ جہاد وقتال فی سبیل اللہ کی واضح علت نہیں ہے۔ یہ نکتہ ہی غامدی صاحب کے تصور دین کی بنیادوں کو ہلا دینے کے لیے کافی ہے۔
لیکن اس کے علاوہ اس مضمو ن میں جو دیگر نکات پر بحث کی گئی ہے اس میں دو محل نظر ہیں ۔ ایک ہے مشرکین عرب سے قتال کی علت سے متعلق یہ موقف کہ یہ ’نقض عہد‘ یا ’طعن فی الدین‘ تھی۔ اور دوسرا یہ موقف کہ عمومی طور پر جہاد و قتال فی سبیل اللہ کی واحد اور اصل علت ’ظلم اور عدوان ‘ ہے۔ یہ دونوں موقف جہاد و قتال سے متعلق قرآن میں پیش کی جانے والی علت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس کے برعکس قرآن کی آیات کی روشنی میں جہاد و قتال فی سبیل اللہ کی اصل علت’ کفر کا فتنہ ‘ بتائی گئی ہے، اور کفار کیونکہ غالب آکر لامحالہ کفر کا فتنہ ہی نافذ کرتے ہیں اس لیے بعض جگہوں پر یہ علت ان کا کفر یا شرک ہی قرار دی گئی ہے۔ ہاں اس حکم کا اطلاق حدود حرم یا جزیرہ عرب کی حدود پر اور طرح سے ہوتا ہے اور ان حدود سے باہر پوری دنیا پر اور طرح سے۔ حدود حرم یا جزیرہ عرب کی حدود کے اندر اللہ کا حکم یہ تھا کہ اس میں جو مشرک موجود تھے ان کے لیے ایک آخری مدت طے کر دی گئی جس کے بعد انہیں لازماً وہاں سے نکلنا تھا۔ نقض عہد کرنے والے کافروں کے لیے یہ مدت ۴ ماہ مقرر کی گئی جبکہ معاہدے کی پاسداری کرنے والے کافروں کے لیے ان کے سابقہ طے شدہ معاہدوں کی مدتوں کو برقرار رکھا گیا۔مدت گزرنے کے بعد یہ حکم تھا کہ اگر وہ کافر رہتےہوئے ان حدود سے نکلنےکا انکار کریں تو قتل کردیے جائیں ۔ اس حکم کے نزول کے وقت جزیرہ عرب میں صرف مشرکین ہی باقی بچے تھے ، جبکہ اہل کتاب یعنی یہود کو تو پہلے ہی سے جلا وطن کر دیا گیا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سورۃ توبہ کی ابتدائی آیات میں اہل کتاب کا ذکر نہیں آیا۔ اس کے بعد اللہ کا یہ حکم نازل ہوا کہ اب جبکہ حدود حرم کو مشرکین سے پاک کر دیا گیا ہے تو آج کے بعد یہ یہاں داخل نہ ہونے پائیں(یہ بات قابل غور ہے کہ خدا نہ خواستہ اگر ایک دفعہ پھر حجاز مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل جائے اور یہاں پھر مشرکین آکر آباد ہو جائیں،توان پر دوبارہ غلبہ پاکر پھر اسی طرح کا اعلان براٗت کرنے کی ضرورت پڑے گی یا اس کی صورت کوئی اور ہو گی۔ بہرحال ان آیات سے شریعت کا حکم اخذ کیا جا سکتا ہے )۔ حدود حرم کی حد تک تو یہ حکم بفضل اللہ تاحال قائم ہے گو کہ جزیرہ عرب کی حدود کی حد تک یہ قائم نہیں رہ سکا ۔جبکہ حدود حرم یا جزیرہ عرب کی حدود سے باہر اللہ کا حکم یہ تھا اور جو تا قیام قیامت لاگو رہے گا کہ مشرکین اور کفار سے قتال کیا جائے تاآنکہ وہ جزیہ دینے اور مسلمانوں کے ماتحت رہنے پر راضی ہو جائیں ۔
اسی طرح یہ موقف کہ اتمام حجت یا اقامت حجت کا کوئی تعلق دنیو ی عذاب سے نہیں ہے بھی محکم بنیادوں پر کھڑا نظر نہیں آتا۔ مضمون ھذا میں اس ضمن میں پیش کیے گئے دلائل کی کمزوری کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ آخری بات یہ کہ محترم جاوید احمد غامدی کی فکر کی بنیادوں پر ایک مدلل تنقید کے حوالے یہ ایک اچھی کاوش ہے ، جس کو مزید محکم کیا جانا چاہیے۔